اتوار, مارچ 26, 2023
spot_imgspot_imgspot_img
Homeکراچیمسلم وویمن لیگ کامہنگائی کیخلاف پریس کلب پراحتجاجی مظاہرہ

مسلم وویمن لیگ کامہنگائی کیخلاف پریس کلب پراحتجاجی مظاہرہ

حکمرانوں کی کرپشن وناقص پالیسیوں کی سزا عوام بھگتنے پرمجبور ہے ۔سلیم الیاس
بڑھتی مہنگائی اور ٹیکسز کی بھرمار نے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیے ہیں۔شگفتہ شاہد پاکستان مرکزی مسلم لیگ شعبہ خواتین مسلم وویمن لیگ کی جانب سے مہنگائی کیخلاف پریس کلب پراحتجاجی مظاہرہ کیا گیا، احتجاجی مظاہرے میں خواتین عہدیداران و کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکاءنے حکومت کیخلاف نعرے بازی کی، مہنگائی مخالف پلے کارڈ اور بینرز بھی اٹھا رکھےتھے۔ جن پرمہنگائی مخالف ،بھاشن نہیں راشن دو ،حاکم مالا مال ہے،بھوکا میرا لعل ہے، میری کمائی لوٹ کر کھاگئی تیری مہنگائی،حکمرانو!تقریر نہیں روٹی چاہیے،وزیراعظم صاحب آٹاسستا کرنےکےلیے آپ کے کپڑے کب بکیں گے، نعرے درج تھے- مہنگائی سے پریشان خواتین نے احتجاجی طور پر گھر کے برتن اور روٹیاں بھی اٹھا رکھی تھیں۔مظاہرے سےسندھ کے میڈیا سیکٹری سرفدار سلیم الیاس ،مسلم وویمن لیگ کراچی کی صدرشگفتہ شاھد ، مسلم وویمن لیگ کی رہنماناذیہ فیصل،صفیہ خلیق،ندا سہیل،حنا عثمان اورصباء حسین نےبھی خطاب کیا ۔مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے سلیم الیاس کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور غلط فیصلوں کی سزا مجبور‘ بے کس اور مہنگائی میں دبے عوام عرصہ دراز سے بھگت رہے ہیں ۔ آج ہر شخص دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدوں میں بھی غریب عوام کےلیےنئے امتحان ہیں۔ معیشت کی زبوں حالی کا سب سے زیادہ اثر غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی ،پٹرول ، بجلی، گیس اور اشیائے خوردنوش کی بڑھتی قیمتیں غریب عوام کے ہوش اڑا رہی ہیں ۔آخر عوام کب تک یہ بوجھ برداشت کریں گے؟مسلم وویمن لیگ کراچی کی صدرشگفتہ شاہد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ٹماٹر،پیاز کی قیمت کا تو پتہ نہیں چلتا مگر مخالفین سے انتقام لینے کی پوری فرصت ہے، دن بہ دن بڑھتی مہنگائی اور ٹیکسز کی بھرمار نے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیے ہیں۔کھانا بنانے کے اوقات میں گیس موجود ہی نہیں ہوتی ۔ اس کے باوجود 124 فیصد اضافہ کرکے حکمران غریب عوام کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ حکومت نے اس قدر مہنگائی کر دی ہے کہ کھانا پکانے کا تیل خریدنا بھی مشکل ہورہا ہے کیا گھروں میں سبزیاں ابال کر کھائیں، سبزیاں بھی اس قدر مہنگی ہیں کہ قوت خرید سے باہر ہیں۔ کراچی کی خواتین بجلی ،گیس، صاف پانی کی عدم فراہمی اور بڑھتی مہنگائی و بے روزگاری سے مشکلات کا شکار ہیں۔
ناذیہ فیصل کا کہنا تھا کہ بڑھتی مہنگائی سے ہر شخص پریشان ہے۔حکمرانوں کی ناقص پالیسیاں غریبوں کو لے ڈوبتی ہیں ۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی دلدل میں پھنسا دیا گیا ہے۔حکومت فوری طور پر معاشی ایمرجنسی لگائے ۔ اپنی اور وزراء کی شاہ خرچیاں کم کرکے عوام کو ریلف دینے پر توجہ دے۔زراعت اور انڈسٹری کی پیداوار بڑھائے اور ایکسپورٹ بڑھائے تاکہ ڈالر کی قیمتیں کم ہوں ۔ ندا سہیل کا کہنا تھا کہ آ ٹا اس قدر مہنگا کر دیا گیا ہے کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتا جا رہاہے عوام مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کا سامنا کر رہے ہیں۔بھوک وافلاس کے سبب خودکشیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اشیا ء ضروریہ صرف مہنگی نہیں بلکہ حد سے زیادہ مہنگی ہو گئی ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کی ایک اور لہر کا عوام سامنا نہیں کرسکتی ۔حکمران عوام پر ترس کھائیں اگر حالات سنبھال نہیں سکتے تو کرسی سے اتر جائیں ۔ دیانت دار قیادت کو راستہ دیں تاکہ وہ ملک و قوم کی خدمت کر سکے۔ صفیہ خلیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ان حالات تک اشرافیہ نے پہنچایا ہے۔ حکومت کا کام پالیسی بنانا ہوتا ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ غریب پر کم سے کم پڑے۔ لیکن ہر دوسرے روز عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبادیا جاتا ہے۔دوسری طرف ٹیکس خرچ کرنے کا موقع آئے تو حکومت کو اپنے آپ پر خرچ کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔ ایسی حکومت کو چلانے پر اربوں نہیں کھربوں خرچ ہو رہے ہیں جو امن و امان نہیں قائم رکھ سکتی، نہ قیمتوں کو کنٹرول کر سکتی اور اپنے اندر سے کرپشن ختم نہیں کر سکتی جو عوام کے لیے باعث رحمت نہیں صرف باعث زحمت ہے۔ حنا عثمان اورصباء حسین کا کہنا تھا کہ سرکاری آٹے کے ایک تھیلے کے لئے کئی کئی روز چکر لگانا پڑتے ہیں۔ امیر صبح ناشتہ انڈے اور پراٹھے کھائیں اور ہم یہاں آ ٹے کیلئے دھکے کھائیں یہ کیسا نظام ہے؟ملک کے حکمرانوں کوخواتین کی تکلیف نظر نہیں آتی۔ عوام کی جمع پونجی مہنگائی اور صنعتکاروں کے ہاتھوں لوٹی جا رہی ہے۔ حکومت کے پاس کرپشن اور الزام تراشی کے سوا کوئی کام یا پالیسی نہیں ہے۔حکمران اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور غریب عوام کو ریلیف دینے میں اپنا کردار ادا کریں

یہ بھی پڑھیں

سب سے زیادہ مقبول

Scan the code